* میں اگر راہِ محبت میں بھی مارا جات *
میں اگر راہِ محبت میں بھی مارا جاتا
ہاں مگر اُس کے لبوں سے تو پکارا جاتا
عشق دریا میں سفر اپنا جو جاری رہتا
دور تک ساتھ ہمارے یہ کنارا جاتا
دو گھڑی ہم ہی زمانے سے نہ شکوہ کرتے
اس محبت میں بھرم تو نہ ہمارا جاتا
بس اسی ڈر سے کبھی خواب نہ دیکھے ہم نے
یہ جو اک آنکھ میںرقصاں ہے ستارا،جاتا
مجھ پہ ہر دور میں اشعار اتارے جاتے
پر صحیفہ نہ کسی طور اتارا جاتا
اُس کا جیون تھا مری موت سے مشروط رضی
میں اگر سانس بھی لیتا تو وہ مارا جاتا
رضی الدین رضی
|