* دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گی *
دکھ تو نہیں کہ تنہا مسافت میں مر گیا
اچھا ہوا میں تیری رفاقت میں مر گیا
حاکم خود اپنے عہدِ حکومت میں مر گیا
زندہ وہی رہا جو بغاوت میں مر گیا
کچھ نفرتوں کی نذرہوا میرا یہ وجود
باقی جو بچ گیا تھا محبت میں مر گیا
مجھ کو کبھی حصار میں کب لے سکا کوئی
میں اس لئے بس اپنی حراست میں مر گیا
اب تو یہ بات تم کوبہت ناگوار ہے
لیکن اگر کبھی میں حقیقت میں مر گیا ؟
اُس کی محبتوں کا رضی ذکر کیا کروں
اتنا سکوں ملا کہ اذیت میں مر گیا
******* |