* دینا مجھے فریبِ نوید حیا ت تم *
دینا مجھے فریبِ نوید حیا ت تم
جب لوگ جا رہے ہوں جنازے لئے ہوئے
تو اپنی بزمِ ناز کو دیکھ اور ازل کو دیکھا
آیا کہاں سے تیری تمنا لئے ہوئے
اس خاکدانِ عشق کی پہنائیاں نہ پوچھ
ذرے پڑے ہیں وسعتِ صحرا لئے ہوئے
تھی کثرتِ جمال سے تاریک بزم دھرم
آنا پڑا چراغ تمنا لئے ہوئے
کہانی میری روداد جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
چمن کے سانحے کو مدتیں گزریں مگر اب بھی
چمکتی ہے جو بجلی ، آشیاں معلوم ہوتی ہے
ترقی پر ہے روز افزوں خلش دردِ محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی وہاں معلوم ہوتی ہے
قفس کی تیلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے؟
کہ ہر بجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
٭٭٭
|