غزل
٭……علی محمد شادؔ عظیم آبادی
اے شبِ غم ہم ہیں اور باتیں دلِ ناکام سے
سوتے ہیں نامِ خدا، سب اپنے گھر آرام سے
جاگنے والوں پہ کیا گزری وہ جانیں کیا بھلا
سو رہے ہیں جا کے بستر پر جو اپنے شام سے
جیتے جی ہم تو غمِ فردی کی دُھن میں مر گئے
کچھ وہی اچھے ہیں جو واقف نہیں انجام سے
نالہ کرنے کے لئے بھی طبعِ خوش درکار ہے
کیا بتائوں دل ہٹا جاتا ہے کیوں اس کام سے
دیکھتے ہو میکدے میں مے کشو ساقی بغیر
کس غضب کی بے کسی پیدا ہے شکلِ جام سے
رات دن پیتے ہیں بھر بھر کر مئے عشرت کے جام
کچھ وہی اچھے ہیں نا واقف ہیں جو انجام سے
اسمِ کو اپنے مسمیّ سے ہے لازم کچھ لگائو
شادؔ آخر کس طرح خوش ہوں میں اپنے نام سے
*******