غزل
اب بھی اک عمر پہ جینے کا نہ انداز آیا
زندگی چھوڑ دے پیچھا مرا میں باز آیا
مژدہ اے روح رواں جام دم ساز آیا
نکہتِ فقر گئی شاہ سرافراز آیا
یاد نے اس نگہہِ ناز کی ماری برچھی
پاس اپنے جو نیا کوئی فسوں ساز آیا
مغبچے ہیں متحیرّ ، متبسم ساقی
پینے والے تجھے پینے کا نہ انداز آیا
دل ہو یا روح و جگر کان کھڑے سب کے ہوئے
عشق آیا کہ کوئی مفیدہ پرواز آیا
دیکھ لو اشک تواتر کو ، نہ پوچھو کوئی حال
غم تو یہ ہے کہ پھر اس بزم میں غماز آیا
دل جو گھبرائے قفس میں تو ذرا پر کھولوں
زور اتنا بھی نہ اے حسرت پرواز آیا
رند پھیلائے ہیںچلوّ کو تکلف کیسا
ساقیا ڈھال بھی دے جام خدا ساز آیا
نہ گیا پرنہ گیا شمع کا رونا کسی حال
گو کہ پروانۂ مرحوم سا دم ساز آیا
اک خموشی میں گلوتم نے بجائے نکالے سب کام
غمزہ آیا نہ کرشمہ نہ تمہیں ناز آیا
بے انیس اب چمن نظم ہے ویراں اے شاد
اب تک ایسا نہ کوئی زمزمہ پرواز آیا
٭٭