غزل
پوچھو نہ حال چشم دل آویز یار کا
کھولو نہ راز گردش لیل و نہار کا
اُس چشم نم خواب سے کس کو یہ تھی امید
جادو جگائے سرمہ دنیالہ وار کا
قدرت اسی کی ورنہ یہ منہ آئینہ کا تھا
جھگڑا چکا ئے شانہ و گسوئے یار کا
ہم سونپتے کسے ہیں ہمیں کو نہیں خبر
مالک ہے کون زندگی مستعار کا
ساقی پی چشم مست پر مشکل نہیں نگاہ
مشکل سنبھالنا ہے دلِ بے قرار کا
نافہم دل نے اور بھی مٹی خراب کی
خوگر بنا کے الفت ناپائیدار کا
پردیس میں خیال تک اب دیس کا نہیں
جی لگ گیا ہر ایک غریب الدیار کا
پیغام آرہے ہیں تواتر وصال کے
ہر ہر نفس فراق میں قاصد ہی یار کا
کس دم طلب کیا مجھے اس پردہ پوش نے
جب نام تک نہیں کفن تار تار کا
کس ناز سے کریں گے حسینان باغ رقص
گائے گی عندلیب ترا نہ بہار کا
مرجائو شوق سے نہ کرو شاد پیش وپس
دل توڑتے ہو کیوں کسی امید وار کا
٭٭٭