غزل
محو ہیں اپنی جگہ آسود گانِ کوئے دوست
آرزوئے دل میں ہے دل آنکھیوں آنکھیں ہوئے دوست
زندگی تا چند محراب دعا میں کاٹئے؟
کاش اک دن ذبح کر چھو ٹے زخم ابروئے دوست
نکلتے آتے ہیں زمیں سے پھول کس کس رنگ کے
شعبدے دکھلا رہی ہے نرگس جادو کے دو ست
لاشہ عریان عاشق کا کوئی دیکھے وقار
ڈھانکتی ہے اٹھ کے کس الفت سے خاک کوائے دوست
دیکھئے کب ہو پذیر اہم گنہگاروں کی عرض
دل دھرے ہاتھوں کے اوپر ہیں نظر ہوئے سو دوست
کس کی قدرت کون سمجھے ان ارشاوں کو بھلا
خلوت اسرار دل ہے گوشہ ابروئے دوست
دہر میں کیا کیا ہوئے ہیں انقلابات عظیم
آسماں بدلا میں بد لی نہ بدلی خوئے دوست
کس خوشی سے تہنیت دیدے کے یہ کہتا ہے دل
وصل کی شب ہے مبابرک دوست و کوپہلوئے دوست
شاد اہل شک یوں ہی شک میں پڑے رہ جائیں گے
ہم انہیں آنکھوں سے اک دن دیکھ لیں گے روئے دوست
٭٭٭