غزل
سرپہ کلاہ کج دھرے زلف دراز خم بخم
آہوئے چشم ہے غضب ترک نگاہ ہے ستم
عشوۂ دلگداز وہ ذبح کرے جو بے چھری
ناز و ہ دشمن وفارحم کی جس کو ہے قسم
وقت عزیز جو گیا اُس کا محال ہے وجود
جتنے زمانے طے کئے طے ہوئے منزل عدم
نرگس پر خمار یار کرتی ہے کام زہر کا
بادہ خوش گوار میں گھول دیا کس نے سم
طول کلام بے محل شاد اگرچہ عیب ہے
لکھتے کچھ اور حال دل حیف کہ رک گیا قلم
٭٭٭