غزل
اک ایک ستم اور لاکھ ادائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ترچھی نگاہیں تنگ قبائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ہجر میں اپنا اور ہی عالم ابر بہاراں دیدہ پرنم
ضد کہ ہمیں وہ آپ بلائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
اپنی ادا سے آپ جھجکتا ، اپنی ہوا سے آپ کھٹکتا
چال میں لغزش منہ پہ حیائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
ہاتھ میں اڑی تیغ پکڑنا تاکہ لگے بھی زخم تو اوچھا
قصد کہ پھر جی بھر کے ستائیںاف ری جوانی ہائے زمانے
کالی گھٹائیں باغ میں جھولے دھانی دوپٹے لٹ چھٹکائے
مجھ پہ یہ قدغن آپ نہ آئیںاف ری جوانی ہائے زمانے
پچھلے پہر اُٹھ اُٹھ کے نمازیں ناک رگڑنی سجدوں پہ سجدے
جو نہیں جائز اس کی دعائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
شاد نہ وہ دیدار پرستی اور نہ وہ بے نشہ کی مستی
تجھ کو کہاں سے ڈھونڈ کے لائیں اف ری جوانی ہائے زمانے
٭٭٭