غزل
سیر کر سیر جو ہی دیدہ بینا باقی
جب تک آنکھیں ہیں جبھی تک ہے تماشا باقی
تیرے دم سے ہے فقط ساغر و مینا اے رند
نہ رہا تو ہی تو دنیا میں رہا کیا باقی
کاش جیتے یونہی مر مر کے کئی بار اے دل
سینکڑوں سال رہے گی ابھی دنیا باقی
ہوں گے اس وقت ترے ناز و ادا قابل دید
جز ترے کوئی یہاں جب نہ رہے گا باقی
قصہ مہر و وفا سب کی زبانوں پر ہے
نہ رہا میں پہ رہا آپ یہ فانا باقی
مجھ سے مایوس ہزاروں ہی تصدق تجھ پر
تو سلامت رہے تجھ سے ہے تمنا باقی
نت نئے کھیل زمانے کو نظر آئیں گے
جب تک اس خاک پہ ہے خاک کا پتلا باقی
میکدہ میں نہ وہ ساغر ہی نہ خم ہے نہ وہ جام
چل بسے یار رہے ہم تن تنہا باقی
شکل ہر شے کی زمانے نے بگاڑی ہر چند
آج تک ہے مگر ان آنکھوں میں نقشہ باقی
جلوہ یارا بھی تک وہی عالم ہے ترا
شجر طور ہے باقی ہے نہ موسا باقی
چار دیوار عناصر کو گرایا بھی تو کیا
وہی دھوکا ہے وہی ہے ابھی پرداباقی
نہ سہی چارگرہ کا جو گریباں نہ سہی
مدد اے عشق کہ ہے دامن صحرا باقی
ہاتھ اٹھا کر جو وہ دے اس کو غنیمت سمجھو
شاد ساقی پہ تمہارا نہیں آتا باقی
٭٭٭