غزل
پس از معشوق مرنا عشق کو بدنام کرنا ہے
خدا مجنوں کو بخشے مر گیا اور ہم کو مرنا ہے
تعلق چھوڑ دیں پائیں کہاں ترا سا دل زاہد
ہمیں تو زندگی پھر دم اسی کافر کا بھرنا ہے
صبا مشاطہ شبنم سے کہہ دے جلد حاضر ہو
چمن میں نو عروسوں کو نہا دھوکر نکھر نا ہے
اکڑ لیں اہل دولت ہم کو ان کی ریس کیا لازم
انہیں مرنا نہ ہو شاید مگر ہم کو تو مرنا ہے
امید و بیم کے دریا کی طوفاں خیز موجیں ہیں
کھڑے ساحل پہ ہیں اور پیر کراس مار اترنا ہے
اُمید و نا اُمیدی کی طرف رُخ تک نہیں کرتے
بہر صورت ہمیں تو کام اپنا کر گزر نا ہے
کبھی غافل نہ رہنا نفس ہے اے شاد سن رکھو
اگر ڈرنا ہے دنیا میں تو اس دشمن سے ڈرنا ہے
٭٭٭