غزل
بڑوں سے خوگرفتہ فرقت مزاج ہے
پہلے تو اک مرض تھا مگر اب علاج ہے
بلبل کا ذکر کیا ہے کچھ اپنی کہو گلو
اس کا جو رنگ کل تھا خزاں میں وہ آج ہے
پیغام بھیجتاہے نہ لکھتا ہے خط کوئی
یہ بھی عجب طرح کا عدم میں رواج ہے
کانٹوں میں ہی گھراہوا چاروں طرف سے پھول
اُس پر کھلاہی پڑتا ہے کیا خوش مزاج ہے
ہر ذی کمال ملک کا اپنے ہے بادشاہ
مِل جاتی ہے جو دادیہی ان کا باج ہے
فرصت کہاں یہ دل کو کہ یک سو رکھے مزاج
کمبخت کے سپرد بہت کام کاج ہے
جانا ہے سوئے کعبہ دل غم کا قافلہ
اُمید کی ذرا سی جھلک میر حاج ہے
آزاد ہم نہ سمجھیں گے اُس وقت تک تمہیں
جس وقت کہ شاد کوئی احتجاج ہے
٭٭٭