غزل
دل تو بد نام ہے خود شاد عبث اس کا گلہ کہتے آتی ہے حیا
یہ اُمیدیں یہ تمنا جنہیں برسوں پالا یہ کب اپنی ہیں بھلا
وہ تری کج روی کلہی کینہ دری، دلبری عشوہ گری
کون غش کے کھا کے سرراہ گرِا کومُوا ۔ پھر کے دیکھا نہ ذرا
بان مارا تری آنکھوں نے جو کی پھر کے نگاہ ۔ نہ ملی دل کو پناہ
یار کیا قہر ہے چلتا ہوا جادو تیرا۔ لاکھ روکا نہ رکا
رت پھری ساری ہری ڈالوں میں پھوٹی کوپل آگئے پھول میں پھل
اک یہ اجڑا ہوا دل ہے کہ نہ پھولا نہ پھلا اور سوکھا ہو گیا
کالی کالی وہ گھٹائیں وہ پیپہوں کی پکار دھیمی دھیمی وہ پھوار
اب کے ساون بھی ہمارا یو ہیں رونے میں کٹا ۔ کیا کہیں چپ کے سوا
بوسہ لینے کا مری خاکہ کو بھی ہے ارمان تاب اُٹھنے کی کہاں
جامہ زہی کا بھلا اے صنم تنگ قبا کچھ تو دامن کو جھکا
فتنہ خو آفت جاں سنگ دل آشوب جہاں ، دشمن امن و اماں
سرورِ کج کلہان خسرو اقلیم جفا، بانی مکرو دغا
رس بھری ہائے وہ آنکھیں تری کالی کالی بے پیئے متوالی
سانوالارنگ ، نمک ریزجراحات جفا، اُف کہاں دھیان گیا
دیکھناتیرا کن انکھیوں سے آڑی برچھی یار اس کی نہ سہی
کب کو گنتی میں ہے وہ گھائو جو اوچھا سا لگا پھر کے پھر دیکھ ذرا
آنکھیں روئی ہوئی آواز ہے بھرائی ہو ئی باتیں شرمائی ہوئی
اس سے تو کسی بھید کا ملتا ہے پتا شاد قسمیں تو نہ کھا
٭٭٭