غزل
سراپا سوز ہے اے دل سراپا نور ہو جانا
اگر جلنا توجل کر جلوہ گاہ طور ہو جانا
ستم ہے آدمی کے واسطے مجبور ہوجانا
زمیں کا سخت ہو جانافلک کا دور ہو جانا
مرے زخموں نے دل کے دل لگی اچھی نکالی ہے
چھپائے سے تو چھپ جانا مگر نا سور ہو جانا
خیال وصل کو اب آرزو جھولے جھلاتی ہے
قریب آنا دل مایوس کے پھر دو ر ہو جانا
ہوئی مدت کہ بوئے گل کے سونگھے کو ترستے ہیں
ادھر سے اے نسیم صبح تا مقدورہو جانا
شب وصل اپنی ہی آنکھوں سے یہ اندھیر دیکھاہے
نقاب ان کا الٹنا رات کا کافور ہو جانا
ہو ساقی کا خم ساقی کا میکش کون ہے رندو
ستم ہے دوسرے کے مال پر مغرور ہو جانا
نہ دے الزام بد مستی کا اک افتاد تھی ساقی
مرا گرنا بھرے ساغر کا چکنا چور ہو جانا
خدا بخشے دکھا کر اک جھلک یوں ہی سہی آنکھوں کو
قیامت ہے جوانی کامری کافور ہو جانا
جو سچ پوچھو تو شاد اپنے کئے کچھ بھی نہیں ہوتا
خداکی دین ہے انسان کا مشہور ہو جانا
٭٭٭