غزل
تمنائوں میں اُلجھا یاگیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایاگیا ہوں
ہوں اُس کوچہ کے ہر ذرہ سے آگاہ
اُدھر سے مدتوں آیا گیا ہوں
نہیں اُٹھتے قدم کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہوں
سویرا ہے بہت اے شور محشر
ابھی بیکار اٹھوایا گیا ہوں
ننایا آکے پہروں آرزونے
جو دم بھر آپ میں پایا گیا ہوں
نہ تھا میں معتقد اعجازی کا
بڑی مشکل سے منوایا گیا ہوں
کجا میں اور کجا اے شاد دنیا
کہاں سے کس جگہ لایا گیا ہوں
٭٭٭