غزل
کافروںمیں تھا نہ ہم سے نا مسلمانوں میں تھا
ہاں اگر ایمان کچھ کچھ تھانوں میخانوں میں تھا
ٹکٹکی باندھے ہوا تھا تیری صورت کی طرف
آئینہ کی طرح جو تھاتیرے حیرانوں میں تھا
کیا کوئی قیدی ترا اے جسم چھوٹا قید سے
آج کیوں شور مبارک باد دیوانوں میں تھا
شب کو تھاآپس میں جھگڑا جو ہنگامِ سحر
زلف سے الجھا ہوا موتی ترے کانوں میں تھا
لب پہ آیا نام ادھر او مست ورگرنے سے بچا
یہ توادنیٰ معجزہ ساقی کا میخانوں میں تھا
دل کھچا جاتا تھا کیوں زنجیر کی آواز پر
کوئی تو یا خوش وحشی تیری دیانوں میں تھا
اس سرا میں کس کی بد نظمی کا شکوہ کیجئے
میزباں کا ذکر کیا جو تھا وہ مہمانوں میں تھا
سبز گویا چاندنی پھیلی ہوئی تھی رات بھر
شب جو آویزہ زرد کا ترے کانوں میں تھا
شاد تف اس زیست پر اور زیست بھی لیلیٰ کے بعد
قیس عاشق تھا مقرر پر گراں جانوں میں تھا
٭٭٭