غزل
٭……علی محمد شادؔ عظیم آبادی
اسیر جسم ہوں، میعادِ قید لا معلوم
یہ کس گناہ کی پاداش ہے خدا معلوم
تری گلی بھی مجھے یوں تو کھینچتی ہے بہت
دراصل ہے مری مٹی کہاں کی کیا معلوم
سفر ضرور ہے اور عذر کی مجال نہیں
مزاتو یہ ہے نہ منزل نہ راستہ معلوم
دعا کروں نہ کروں سوچ ہے یہی کہ تجھے
دعا سے پہلے مرے دل کا مُدّعا معلوم
سنی حکایتِ ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتداء کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
کچھ اپنے پائوں کی ہمت بھی چاہئے اے پیر
یہی نہیں تو مددگاریِٔ عصا معلوم
طلب کریں بھی تو کیا شے طلب کریں اے شادؔ
ہمیں کو آپ نہیں اپنا مدّعا معلوم