* کچھ اور بھی وہ حسین ہو گیا خفا ہو کر *
کچھ اور بھی وہ حسین ہو گیا خفا ہو کر
مزے لئے مری آنکھوں نے بے مزا ہوکر
یہ نور نور ہے جاگیر تو کسی کی نہیں
اُلجھ پڑا ہوںمیں خورشید سے دیا ہو کر
جواز کوئی اگر میری بندگی کا نہیں
میں پوچھتا ہوں تجھے کیا ملا خدا ہوکر
یہ زندگی ہے کہ بارش ہے سنگریزوں کی
میں ٹوٹ پھوٹ گیا اس میں مبتلا ہوکر
میں سنگِ میل نہیں ہوں نشانِ عبرت ہوں
پڑا ہوں راہ میں تسخیر نارسا ہوکر
میں اس کی آس میں تھا سب کو اڑ کھولے ہوئے
گذر گیا وہی لمحہ گریز پا ہو کر
مجھے تلاش تھی جس کی وہ شخص ہی نہ رہا
بدل گیا وہ میرے غم سے آشنا ہو کر
*********************** |