* اک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گاؤ *
اک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گاؤں میں
راہ میں مدھ بن پڑتا ہے اونچے چیڑ کی، چھاؤں میں
وہ پگڈنڈی جس پر لیلیٰ اب تک رستہ دیکھتی ہے
اب تک سرسوں پھول رہی ہےاُن رنگین فضاؤں میں
بوڑھے برگد پر اب تک آسیب بسیرا کرتا ہے
جھولے سونے سونے ہیں ساون کی مست فضاؤں
تیرے میرے دل کی کہانی دنیا میں مشہور رہی
رانجھا ہیر کے قصے سنتے آءے رقص کتھاؤں میں
وہ بچپن جو اب تک دل میں چھپ چھپ کر مسکا تا ہے
سوچتے ہیں چھوڑ آئیں ُاسکو دور دراز خلاؤں میں
شائستہ مفتی
|