* د ل کا نگر آ با د رکھے وہ شب میں بز م ̴ِ *
د ل کا نگر آ با د رکھے وہ شب میں بز م ِخیا ل سجے
میں جس آئینے میں دیکھوں تیرے ہی خطٌ و خال سجے
نقطوں کی تکرار سے حُسنِ بیاں بھی ہو ابہام بھی ہو
حرف کے صورت گر مجموعے دیکھے سال ہا سال سجے
ایک طرف کونے میں لہو سے دل کو نقش کیا اُ س نے
آ پ نے تحفے میں دیکھے ہوں شا ید یہ ر و ما ل سجے
وقت کی قید سے با ہر آ کر پہلے لب پیو ست ہو ئے
پھر اِک دوجے کے بوسو ں سے اک دوجے کے گال سجے
ہاشمی بعد ہمارے بساط ِ سُخن چاہے جس ہاتھ میں ہو
اپنی طلب ہے تا ز ہ غزل سے روزانہ فی الحال سجے
**** |