* ہم کو معلوم ہے کب جان ِ وفا بولتی ہے *
غزل
ہم کو معلوم ہے کب جان ِ وفا بولتی ہے
آنکھیں خاموش رہیں اُن میں حیا بولتی ہے
’’یہ لب و لہجہ نہیں میرا، غزل میری نہیں‘‘
جانے کیا کیا مجھے یہ خلق ِ خُدا بولتی ہے
مہکا کرتی ہے ترے ہاتھ کی خوش بو دل میں
تو اگر مُہر بہ لب ہو تو حِنا بولتی ہے
سنتے رہتے تھے شبِ وصل صداچوڑی کی
اب دکھا کیسے کلائی سے جُدا بولتی ہے
خیر ہو شہرِ کراچی کی سرِ شہرِ غزل
چپّے چپے پہ یہاں مرگ فنا بولتی ہے
۱۹۹۸ئ؎
سید انور جاوید ہاشمی
|