* جب طبع رواں ہوچکی ہر صنف ِ سُخن پر *
اُفتَاد ِ طبع
جب طبع رواں ہوچکی ہر صنف ِ سُخن پر
اور پھولا سماتا نہ تھا من اپنے ہی فن پر
نقآد نے ناگاہ یہ آواز لگائی
کیوں کر نہ توجّہ رکھی اس نکتہ ٔفن پر
دریافت کیا :آپ کی کیا منشاٌ ہے اس سے
بولا کہ نظر ڈالیے اُس صنف ِ سُخن پر
جس میں کہ شہنشاہ کے لکھتے ہیں قصائد
اور اِس کے عِوض دھَن کی قبا آتی ہے تَن پر
مَیں نے کہا معذور ہے اس باب میں بندہ
تخلیق کو اپنی یہ بناتا نہیں دھندا
کیا اتنا غنیمت نہیں کہ ہوں میں مبّرا
اُس فن سے جو غالبؔ کے لئے بن گیا پھندا
انسان اور انسان کی یہ مدح سرائی
مانگوں گا بھلا نان و نمک کے لیے چندہ!
رکھتا ہوں شرف ہاشمی نسبت ہے خصوصی
کیا سحر طرازی کا ہوں تائید کنندہ
****** |