خدا کا فضل ہے ،اعزاز ہے سند ہے ابھی
جو کہہ دیا ہے سمجھ لیجے مُستَند ہے ابھی
زمیں پہ آدمی محرومِ رِزق ہے کیوں کر!
طلب سے بڑھ اگرچہ یہاں رسَد ہے ابھی
قیامِ امن و مسَاوات صرف نعرہ زنی
کہ خاک و خو ُن میں غلطاں مرا بلَد ہے ابھی
وہ شخص جو رہا تِمثَال دارِ آ ئینہ
ہر اِک نظَر میں وہ قامَت ہے اُس کا قَد ہے ابھی
کھلے ُ گا راَزِ جُنوں عشق زاد ہوکر ہی
لبَوں پہ شِکوہ ٔ محرومی ِ خِرَد ہے ابھی
پہنچ ہی جائے گا انجَام تک کسی ساعَت
وہ فیصلہ جو میان ِ قُبول وٗ رَد ہے ابھی
سیدانورجاویدہاشمی
٭٭٭