* کرشمے مسلکِ صبر و رضا کے دیکھتے ہی *
کرشمے مسلکِ صبر و رضا کے دیکھتے ہیں
ہم اپنے سامنے جلوے خدا کے دیکھتے ہیں
وہ جذبِ عشق کو یوں آزما کے دیکھتے ہیں
نظر سے دور ہیں پر یاد آ کے دیکھتے ہیں
ہمیں ہے علم کہ دیدار ہے محال اُن کا
ہم اُن کو اپنے تصور میں لا کے دیکھتے ہیں
کسے خبر کہ علاج اس کا ہو ہی جائے کہیں
فسانہءغمِ ہستی سنا کے دیکھتے ہیں
یہ زندگی ہے امانت تو اِس کے اہل ہیں ہم
یہ بار بار ہے لیکن اُٹھا کے دیکھتے ہیں
یہ جانتے ہیں کہ دنیا ہے بے وفا لیکن
نہ جانے کیوں اِسے ہم آزما کے دیکھتے ہیں
نظر ملا نہیں پاتے خود اپنے آپ سے ہم
تو اپنے آپ سے خود کو چھُپا کے دیکھتے ہیں
یہ دل بھی دل ہے کہ ویران ہو ہی جاتا ہے
اورہم بھی ہم ہیں اُسے پھر بسا کے دیکھتے ہیں
عجیب بات ہے کل کی امید میں عارف
گذر چکا ہے جو اس کو بھُلا کے دیکھتے ہیں
**** |