* وفا کے گائے ہوئے گیت گا رہا ہوں میں *
وفا کے گائے ہوئے گیت گا رہا ہوں میں
سنی سنائی کہانی سنا رہا ہوں میں
جفائے دوست بنی رہنمائے منزل دوست
وہ کھو رہے ہیں مجھے ان کو پا رہا ہوں میں
ہے میری خاک کے ذروں میں پھر نمودِ حیات
کہیں انہیں تو نہیں یاد آرہا ہوں میں
محبت! آہ محبت کی زندگی مت پوچھ
بڑی مصیبتوں میں مبتلا رہا ہوں میں
ہے کائنات کا ہر ذرہ ہمنوا میرا
کچھ ایسا محفلِ ہستی پہ چھا رہا ہوں میں
مرا فسانہ غم دل نے بھی کبھی نہ سنا
قتیلِ شکوہ درد آشنا رہا ہوں میں
٭٭٭
|