چاروں اور تھی جھوٹ کی برکھا سانچ کی آنچ ہمیں تک تھی
ہم بیساکھ کی دھوپ سے سلگے ساون کی ہریالی میں
****
کہاں تک فلسفہ الفاظ کے آسیب سے بچتا
معانی ذہن کے اندر بھی حرف آلود ہوتے ہیں
****
کسی پیڑ کے سائے میں دھونی رما، کسی گھر میں نہ بن مہمان میاں
کوئی مکھڑا کھب گیا دل میں اگر، اسی ڈنک سے جائے گی جان میاں
نہ میں وارث شاہ نہ میر تقی، کشکول بدست گداگر ہوں
کچھ ادھر سے لیا کچھ اُدھر سے لیا، یوں ہی جمع کیا دیوان میاں
****