کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگار کے پیچھے
کہ یہ ہنگامۂ تخلیق بے علت نہیں برپا
****
دور افتادہ قصبے میں طالؔب ہم آباد ہوئے
ڈرے ہوئے تھے تہذیبوں سے، ڈسے ہوئے آگاہی کے
****
ماضی کے ہر دور میں دنیا والوں کا دستور رہا
پیغمبر سے بیر نکالا، نفرت تھی پیغام کے ساتھ
کس لکڑی کا ماضی کیا تھا جلتا چولہا کیا جانے
اس سے پوچھو جس کا ربط ہو باغ کے قتلِ عام کے ساتھ
ترک و طلب کا ہم دونوں میں کب سے تصادم جاری ہے
اس کا نام لیا جاتا ہے اب تک میرے نام کے ساتھ
****