بے مقصد پرواز سے تھک کر تتلی پھول پہ بیٹھ گئی
پھول تو اپنی جان سے ہارا تتلی بھی بدنام ہوئی
کوفے کے سارے دروازے آخر مجھ پر بند رہے
خوف زدہ گلیوں میں تنہا پھرتے پھرتے شام ہوئی
گاؤں کے پس منظر میں دن بھر چیخنے والی پن چکی
میرے کل کی خاطر اپنے آج میں بے آرام ہوئی
****
کتنی بے آواز ہے دن میں نیستاں کی فضا
شب کی تاریکی میں لیکن کتنی پراسرار تھی
****
شام ڈھلے منہ ڈھانپ کے سونا سورج کی مجبوری ہے
اپنی خوشی سے کون یہ چاہے اجلے دن کو رات کرے
****