خلوتِ بے نشان میں پھول کھلے نشان کے
وحشتِ دل بھی سو گئی چادرِ ماہ تان کے
اپنے لباسِ جاں پہ بھی صاحبو ٹک نظر کرو
ہنستے رہو گے کب تلک ہم کو غریب جان کے
خلوتیانِ کنج ہوش تشنہ لبانِ یم بہ دوش
میرے حریف تھے مگر لوگ تھے آن بان کے
موج بہ موج یم بہ یم بادِ مراد ساتھ تھی
ناؤ سے رد نہ ہو سکے فیصلے بادبان کے
تیری گلی میں جاگ کر ہم نے بھی جُگ بتائے ہیں
ہم پہ بھی فاش ہوں کبھی رنگ ترے مکان کے
کیا وہ نگاہِ رنگ و بو گاؤں سے کوچ کر گئی
گنگ ہے نیم کا درخت خشک ہیں کھیت دھان کے
****
لوگ اس طرح سے ملتے ہیں سرِ کوچۂ رزق
بڑھ کے تلوار سے جیسے کوئی تلوار ملے
****
وہ مجھ پہ فاش ہوا کل کھلی کتاب کی طرح
اس اتفاق کو ذوقِ مطالعہ کہیے
*****
دل کسی منزل کو پا لینے کی خواہش کیا کرے
کھیت ہی جب کم زراعت ہوں تو بارش کیا کرے
*****
سنا کے قید میں احوال راہگیروں کے
ہوا نے کھول دئے دست و پا اسیروں کے
کوئی سخی نظر آتا تو ہاتھ پھیلاتے
اس انتظار میں دن کٹ گئے فقیروں کے
****
ایک کنویں کی گہرائی سے مصر کے تختِ شاہی تک
دیکھنے والی آنکھ کو کتنے نادیدہ بازار ملے
****
وقت نے میری ہی محنت سے اپنی ساکھ بنائی ورنہ
اس کا اتنا نرخ کہاں تھا پہیے کی ایجاد سے پہلے
****
وقت کی پگڈنڈیوں سے بستیوں تک آ گئے
ہم ابھی کچھ قرن پہلے تک چراگاہوں میں تھے
****