اُس کا ہر انداز سجیلا بانکا تھا
کچھ تو بتاؤ وہ خوش پوش کہاں کا تھا
ایک طرف سے کھلی ہوئی تھی شیر کی راہ
لیکن اس پر تین طرف سے ہانکا تھا
مت گھبرانا دوست، غبارِ ناقہ سے
ہم نے بھی اس دھول کو برسوں پھانکا تھا
اُس کے گھر سے نکل کر ہم نے شام ڈھلے
کچھ نہیں یاد کہ کتنے گھروں میں جھانکا تھا
****