مرے بچو! مجھے آواز دی ہے روحِ صحرا نے
سو اب گھر سے چلے جانے کی آسانی مجھے دے دو
****
خلوتِ جاں میں چیخ رہا ہوں کوئی نئی عریانی دے
جیسے دشت میں پیاسا چیخے میرے مولا پانی دے
یادوں کا ویران جزیرہ برسوں تک آباد رہے
ہجر کا موسم اچھا گزرے ایسی کوئی نشانی دے
رات سے پہلے گھر آ جانا دھُند اُترنے والی ہے
رات کہاں سے خوشیاں دے گی شام ہی جب ویرانی دے
****