* ہے مری طاقت و تواں کا *
ہے مری طاقت و تواں کا
وہ کریں گے خاک پروا مرے نالہ و فغاں کی
سرِ شاخ آشیاں بھی مجھے خوف تھا قفس کا
نہ ہوئی نصیب دل کو کبھی راحت آشیاں کی
مرے گریہ الم پر نہ بہائے جائیں آنسو،
کہیں تم ہنسی نہ کرنا مری چشم خونفشاں کی
مجھے ہمنوا نہ دینا کہیں زحمتِ تکلم
کہی جائے گی قفس میں نہ حکایت آشیاں کی
ہو رسائی کیا وہاں تک بس اک آسرا یہی ہے
کہ انہیں کو یاد آئے کبھی اپنے ناتواںکی
مجھے اب شگفتگی کی ہو قفس میں کیا توقع
گئی ساتھ آشیاں کے جو تھی بات آشیاں کی
٭٭٭ |