غزلِ
یاس یگانہ عظیم آبادی
چلے چلو، جہاں لے جائے وَلوَلہ دل کا
دلیلِ راہِ محبّت ہے فیصلہ دل کا
ہوائے کوچۂ قاتل سے بس نہیں چلتا
کشاں کشاں لیے جاتا ہے وَلوَلہ دل کا
گلِہ کِسے ہے کہ قاتل نے نیم جاں چھوڑا
تڑپ تڑپ کے نکالوں گا حوصلہ دل کا
خُدا بچائے، کہ نازک ہے اِن میں ایک سے ایک
تنک مزاجوں سے ٹھہرا مُعاملہ دل کا
دِکھا رہا ہے یہ دونوں جہاں کی کیفِیَّت
کرے گا ساغرِجم کیا مقابلہ دل کا
ہَوا سے وادیِ وحشت میں باتیں کرتے ہو
بھلا یہاں کوئی سُنتا بھی ہے گِلہ دل کا
قیامت آئی کُھلا رازِ عشق کا دفتر
بڑا غضب ہُوا، پُھوٹا ہے آبلہ دل کا
کسی کے ہو رہو اچھّی نہیں یہ آزادی
کسی کی زُلف سے لازم ہے سِلسِلہ دل کا
پیالہ خالی اُٹھا کر لگا لِیا مُنہ سے
کہ یاس کچھ تو نکل جائے حوصلہ دل کا
یاس یگانہ چنگیزی
١٩١٢
( مرزا واجد حسین عظیم آبادی )