* جب تک ہیں مرے قلب کے آزار سلامت *
جب تک ہیں مرے قلب کے آزار سلامت
تب تک ہیں مگر شوق کے آثار سلامت
اس دور میں دیکھی ہے عجب ہم نے خدائی
زاہد ہی سلامت ہے ؛ نہ مۓ خوارسلامت
حیراں ہیں عنادل کہ کہاں جایئں ؛ کہ اب تو
نہ دشت سلامت ہے ؛ نہ گلزار سلامت
وہ فلسفی ٹھرے کہ نہ سمجھیں گے مری بات
میں حق پہ رہا ؛ میری بھی تکرار سلامت
چرچے ہیں جنوں کے مری شوریدہ سری سے
صدقے میں مرے قتل کے ہے دار سلامت
باقی ہے ہمی سے روش شور و بغاوت
ہم نے ہی رکھی رونق دربار سلامت
وہ قوم سلامت نہیں رہتی ہے بہت دیر
جس قوم کے رہ جایئں نہ افکار سلامت
******************************* |