* اپنی ٹھوکر میں تاج ہے صاحب *
اپنی ٹھوکر میں تاج ہے صاحب
اپنا صحرا میں راج ہے صاحب
ھجر کے ساتھ اپنی قسمت کا
رشتۂ ازدواج ہے صاحب
کیا کریں رسم انتظار کی ہے
ھجرتوں کا رواج ہے صاحب
بچھڑے تم بھی ہو پر دکھی ھم ہیں
اپنا اپنا مزاج ہے صاحب
کیا کویٔ حاصلِ امید بھی ہے؟
وہم کا بھی علاج ہے صاحب؟
خود کلامی بھی رک گیٔ آخر
خود سے بھی احتجاج ہے صاحب
شعر کہتے ہیں ، سانس لیتے ہیں
بس یہی کام کاج ہے صاحب
آپ کو یاد کرتے رہتے ہیں
اور کیا احتیاج ہے صاحب
********************** |