* اپنے مٹ جانے کا ادراک لیٔے پھرتا ہ *
اپنے مٹ جانے کا ادراک لیٔے پھرتا ہوں
ختم ہوتی ہویٔ املاک لیٔے پھرتا ہوں
آسماں میرا اک امکان لیٔے پھرتا ہے
اور میں منطق الفلاک لیٔے پھرتا ہوں
درد پایا ہے کبھی ختم نہ ہونے والا
دل کے اندر کویٔ سوزاک لیٔے پھرتا ہوں
مجھ سے چھُپتی نہیں دنیا تری عریانی ‘ اب
دیکھ میں دامنِ صد چاک لیٔے پھرتا ہوں
اپنی مٹّی ہی کچھ ایسی ہے زمانے والو
اپنے قدموں تلے افلاک لیٔے پھرتا ہوں
******************************* |