* نہیں ہے دل میں ہمارے جو خواہشات اب *
غزل
نہیں ہے دل میں ہمارے جو خواہشات ابھی
بنی ہوئی ہے جہاں میں ہماری بات ابھی
ہر اک قدم کو ذرا پھونک پھونک کر رکھیے
اٹھارہے ہیں بہت سریہ حادثات ابھی
مزاج سخت ہوئے ہیں زبان نرم نہیں
بگڑ رہا ہے یون ہی رنگِ کائنات ابھی
ثمر خوشی کا خوشی سے نصیب ہوتا ہے
کسی پہ دیکھ لو تم کر کے التفات ابھی
نہ کوئی محوِ تکلم نہ کوئی خندہ بلب
تلاش کرتی پھرے ہے مری حیات ابھی
عجیب کیفیتِ دل ہے ایسا لگتا ہے
کہ جیسے تازہ ہوئی کوئی واردات ابھی
خدا نے چاہا تو نورِ سحر بھی نکلے گا
ہوئی ہے گرچہ مسلط سیاہ رات ابھی
ہمارا جیسے کوئی امتحان باقی ہے
جھنجوڑتی ہیں ابھی ہم کو مشکلات ابھی
خلوص دل میں لیے ہم بھی یاسؔ بیٹھے ہیں
کوئی بڑھائے تو دستِ تعلقات ابھی
+++
|