* بھڑکا دیا شعلوں کویہ کس نے ہوا دی ہ *
غزل
بھڑکا دیا شعلوں کویہ کس نے ہوا دی ہے
اس امن کی بستی میں کیوں آگ لگادی ہے
اچھائی کا وہ اپنی پائے گا صلہ اک ان
وہ جس نے برائی کی تصویر مٹادی ہے
ہم ان کی نگاہوں میں اک دن نہ سما پائے
ہم نے انہیں آنکھوں میں اور قلب میں جادی ہے
وہ جس نے عداوت سے کوساہے ہمیں ہردم
ہم نے اسے جینے کی دن رات دعادی ہے
دیکھیں گے پرکھ کر ہم انصاف ترا اک دن
کس کس کو سزادی کس کس کو جزادی ہے
خاموش جو رہتا ہے وہ سو کو ہراتا ہے
سچی یہ کہاوت ہے جو ہم نے سنادی ہے
دو بھائی اخوت سے جب رہنے نہیں پائے
آنگن میں اسی گھر کے دیوار اٹھادی ہے
اے دوست حقیقت میں دنیا کی ہر اک رونق
جنت کی تمنا نے بے سود بنادی ہے
کیوں عمر گزاری ہے باطل کے اندھیروں میں
حق نے تو تمہیں حق کی دن رات ضیادی ہے
اے یاسؔ تصور کی صنعت گری کیا کہیے
ہر زاویے سے ان کی تصویر بنادی ہے
+++
|