* ہوتا نہیں کچھ بھی تری قدرت کے علاو *
غزل
ہوتا نہیں کچھ بھی تری قدرت کے علاوہ
ملتا نہیں انسان کو قسمت کے علاوہ
کیا اچھا ہو وہ خیر کے کاموں میں لگادے
ملجائے کسی کو جو ضرورت کے علاوہ
بیٹھا ہوا فٹ پاتھ پہ ہے سرکو جھکائے
لگتا ہے نہیں کچھ بھی تو غربت کے علاوہ
کیا پائے گا تو حکمِ خدا توڑ کے غافل
کیا ہے تری تقدیر میں ذلت کے علاوہ
اللہ بھی ناراض ہوناراض ہوں آقا
ہم کرنے لگیں کام جو سنت کے علاوہ
ہم ذلت ورسوائی سے ہرگز نہ بچیں گے
دیکھیں گے اگر ہم تری رحمت کے علاوہ
دیکھو تو ہر اک شے کو ذرا جائزہ لے کر
کچھ بھی نہ ملے گا تمہیں عبرت کے علاوہ
دریائے محبت میں ذرا غوطہ زنی کر
کھل جائیں گے اور اق کتابت کے علاوہ
اللہ کا حق بندے کا بندے سے تعلق
پائے گا کہاں کوئی محبت کے علاوہ
اے یاسؔ سمجھنا اسے سونے پہ سہاگہ
صورت بھی اگر خوب ہو سیرت کے علاوہ
+++
|