* اجلا ہوگیا وقتِ سحر اہستہ آہستہ *
غزل
اجلا ہوگیا وقتِ سحر اہستہ آہستہ
منور ہوگئے دیوار ودر آہستہ آہستہ
خیال آیا بلندی کا نظر جب آسماں آیا
طیورِ باغ نے کھولے ہیں پر آہستہ آہستہ
نکل جائے گادل سے اضطراب وقتِ تنہائی
سکوں لے کر وہ آجائے نظر آہستہ آہستہ
عصابن کر اگر اولاد آجائے تو اچھا ہے
جھکے گی جب ضعیفی میں کمر آہستہ آہستہ
رہے گا کون باقی سب چلے جائیں گے دنیا سے
گزر جائے گی عمرِ مختصر آہستہ آہستہ
حقوق اللہ کا بندوں کااس کے حق ادا کردو
لٹے گی سب متاعِ سیم وزر آہستہ آہستہ
خشوعِ دل سے جب ہوگی عبادت لطف آئیگا
جھکے کا روبرو جب اس کے سر آہستہ آہستہ
یہ کیسا دوست ہے جو روز آتا ہے ترے گھر پر
بنے گا ایک دن یہ دردِ سر آہستہ آہستہ
خیال آتاہے بس مجھکو خرام ناز کا اس کے
چلے ہے جب کبھی باد ِسحر آہستہ آہستہ
یہ دل ہے یاسؔ اس کو صدق کے سانچے میں ڈھالا ہے
تپ آیا ہے شعورِ خیر وشرآہستہ آہستہ
+++
|