* اُسے جانِ غزل سمجھا کبھی روحِ روا¬ *
غزل
اُسے جانِ غزل سمجھا کبھی روحِ رواں سمجھا
قرارِ قلب وجاں سمجھا متاعِ دوجہاں سمجھا
کبھی ہم نے اسے خورشید عالم تاب سمجھا ہے
کبھی اس کو اندھیرے میں چراغ ضوفشاں سمجھا
مرے دل نے محبت میں اسی کی بات مانی ہے
اسی کو جسم وجاں پر ذہن ودل پر حکمراں سمجھا
بھروسہ اٹھ گیا جب کہ کسے اپنا بنائیں ہم
وہی غماز نکلا جس کو ہم نے رازداں سمجھا
غموں سے واسطہ جس کاخوشی سے ہے جسے نسبت
اُسی کو غمزدہ سمجھا اسی کو شادماں سمجھا
ملی راحت ذرادل کو تو سوچا اس کی رحمت ہے
مصیبت جب کوئی آئی تو اپنا امتحان سمجھا
کیا ہے زندگی میں خاکساری کا شرف حاصل
ہمیں ادنیٰ رہے اوروں کو ہم نے آسماں سمجھا
بنایا ہے اسے مرکز کبھی اپنی نگاہوں کا
کبھی وسعت میں اس کو یاسؔ بحرِ بیکراں سمجھا
+++
|