* سارے مسیحا ہوگئے عاجز بس ان کی مجب *
غزل
سارے مسیحا ہوگئے عاجز بس ان کی مجبوری ہے
اس کا مداوا ہو نہیں سکتا زخم تو یہ ناسوری ہے
ایسا ساکت کرکے گیا وہ مہر بہ لب ہیں میرے ہونٹ
کیسے لبوں کو جنبش دوں میں چپ رہنا مجبوری ہے
مت پوچھو تم ہجر کی شب کو وہ ہے اتنی طولانی
ناپنا مشکل ہوجائے گا جتنی ان سے دوری ہے
کہنے سے تو بات پرائی ہو جاتی ہے سنتے ہیں
تم میرا اب حال نہ پوچھے کہنے سے معذوری ہے
تم نے تو اغیار کی باتیں اک اک کر کے سن لی ہیں
میری طرف بھی غور کرو تم میری بات ادھوری ہے
بابِ محبت واہے ہردم جب چاہیں وہ آجائیں
اذن کی کیا ہے ان کو ضرورت ان کیلئے منظوری ہے
جو بھی بدی کے کام کرے گا وہ ناری کہلائے گا
نیکی کرنے والا انساں میری نظر میں نوری ہے
ہم نے بنالیں کتنی ذاتیں کیوں نہ ہو آپس میں دوری
یہ انصاری یہ ہے قریشی اور یہ بشر منصوری ہے
دوررہوں توجاں نکلے ہے پاس رہوں تو زیست ملے
ان کے قریں اب میرا رہنا کتنا یاسؔ ضروری ہے
+++
|