* جس طرح وہ چاقو سے ثمر کاٹ رہاہے *
غزل
جس طرح وہ چاقو سے ثمر کاٹ رہاہے
یوں کوئی مرا قلب وجگر کاٹ رہا ہے
پرواز کا فن جسکو سکھایا کبھی میں نے
وہ آج مری سمتِ سفر کاٹ رہاہے
کیا کیجئے اس دور میں غیروں کی شکایت
اپنا تو جگر لختِ جگر کاٹ رہا ہے
دنیا تو سرائے ہے مگر وہ بھی ہے فانی
کچھ روز یہاں عمر بشر کاٹ رہا ہے
انصاف ملے کیسے عدالت سے بتائو
منصف ہی تو قانون کا سرکاٹ رہا ہے
پتھر بھی اٹھا تا ہے وہ شیشے کے مکاں پر
تیشے سے بھی پتھر کا جگر کاٹ رہا ہے
سائے سے بھی محروم وہ ہو جائے گا کہدو
کیوں دھوپ کی شدت میں شجر کاٹ رہا ہے
کیوں میرا بھلا کام کھٹکنے لگا اس کو
جو آج مرا دستِ ہنر کاٹ رہا ہے
باقی نہ رہا کوئی بھی رشتے کا تقدس
اب باپ کا سریاسؔ پسر کاٹ رہا ہے
+++
|