* کسی کو راحتِ دنیا میں ڈال دیتا ہے *
غزل
کسی کو راحتِ دنیا میں ڈال دیتا ہے
کسی کو عیش وطرب سے نکال دیتا ہے
بقدرِ وصف صفت سے نوازتا ہے وہی
بقدرِ ظرف وہ جاہ و جلال دیتا ہے
ذرا بھی طیش کبھی حد سے ہوگیا افزوں
مجھے وہ موم کے سانچے میں ڈھال دیتا ہے
کمال درجے سے اوپر سے اسکی صناعی
جو شکل دیتا ہے جسکو کمال دیتا ہے
ہزار دستِ جنوں پھاڑتا ہے پیراہن
خرد کادستِ تحفظ سنبھال دیتا ہے
کوئی تو معرکو ہم نے بھی سر کیا ہوگا
کوئی ہماری بھی اکثر مثال دیتا ہے
بنا تو دیتا ہے وہ صاحب نصاب مگر
یہ اس کا لطف ہے جسکو وہ مال دیتاہے
نظر میں آگیا سب کی ذرا جوعیش ملا
دکھوں کی کوئی ہمارے مثال دیتا ہے
کوئی بھی یوسف ثانی نہ مل سکے گا کہیں
ہزار یاسؔ وہ حسن وجمال دیتا ہے
+++
|