* حمدباری *
حمدباری
یوںتو مری سرشت میں خیر بھی اور شر بھی ہے
عقل بھی ہے جنوں بھی ہے عیب بھی ہے ہنر بھی
شکر کروں ترا ادا تو نے مجھے بہت دیا
مجھ سے گناہ گار پر مولا تری نظر بھی ہے
بحر میں تو ہے بر میں تو شام میں تو سحر میں تو
مہر ترا ہے ضوفشاں جلوہ نما قمر بھی ہے
موم میں تو ہے سنگ میں قوسِ قزح کے رنگ میں
یعنی ہر ایک چیز کے حسن میں جلوہ گر بھی ہے
کس کس کی میں مثال دوں ہر شے میں توہے ضوفشاں
برق لیے شرر بھی ہے آب لیے گہر بھی ہے
دل کی ہر ایک بات کو کون سنے ترے سوا
میرے خیال وفکر سے توہی تو باخبر بھی ہے
دنیا کے عیش سے مجھے کوئی خوشی نہیں خدا
بندہ ترا سکون سے بسترِ خاک پر بھی ہے
یاسؔ تو بے قرار تھا اس کو بھی دید یا سکوں
تیرا ہی نام ہر گھڑی اس کی زبان پر بھی ہے
۰۰۰
|