* قصور اندھیرے کا یہ نہیں ہے ہمارے ذ *
قصور اندھیرے کا یہ نہیں ہے ہمارے ذہنوں کی کھلبلی ہے
سڑک پر رسی پڑی ہوئی ہے جو سانپ بن کر ڈرا رہی ہے
کسی سہارے کی آرزو نے شناوروں کو شکست دی ہے
مہیب موجوں نے کیا بگاڑا، حقیر تنکوں نے جان لی ہے
کرن نے لوٹا ہے اس کا زیور، ہوا نے اس کا لباس اتارا
برہنہ ٹہنی بدست گلچیں تمام انگوں سے کانپتی ہے
رسولِ تخیل ہر قدم پر سروشِ الفاظ کا ہے مرہوں
مگر جہاں سے یہ بڑھ گیا ہے وہیں ہر آواز جل گئی ہے
سیاہی نیم شب کی منت کہ روشنی سحر کو رشوت
جبینِ خورشید دن کی چوکھٹ پہ پائوں ظلمت کے چومتی ہے
ظہیر کیا آج کہہ گیا ہے کہ لوگ ششدر کھڑے ہوئے ہیں
ہر ایک پتھر سرک گیا ہے ہر ایک مٹھی کھلی پڑی ہے
٭٭٭
|