* پتھر کا ہے یہ دور نہ ایسا کرے کوئی *
غزل
پتھر کا ہے یہ دور نہ ایسا کرے کوئی
آئینہ بن کے خود کو نہ رسوا کرے کوئی
دیوار و در سے شہر کے آتی ہے یہ صدا
وہ بے وفا ہے اس کو نہ چاہا کرے کوئی
جس زندگی کو سانس بھی خیرات میں ملے
جینے کی اس طرح نہ تمنا کرے کوئی
مرنا مجھے قبول مگر یہ نہیں پسند
بیمار ہوں کسی کا تو اچھا کرے کوئی
میخانۂ حیات کا دستور ہے عجیب
چھلکائے کوئی جام تو ترسا کرے کوئی
آنکھوں میں ہے جلال بھنویں ہیں تنی ہوئیں
مطلب یہ ہے نہ عرضِ تمنا کرے کوئی
پیچھے پلٹ کے دیکھنا فطرت نہیں مری
اشرف ہزار بار پکارا کرے کوئی
اشرف یعقوبی
6/2/H/1, K.B. 1st Lane
Narkeldanga, Kolkata-700011
Mob: 9903511902 / 9835628519
…………………………
|