* چھڑک رہا ہے کوئی عطر گل چمن کی طرف *
غزل
چھڑک رہا ہے کوئی عطر گل چمن کی طرف
خیال جانے لگا اس کے پیرہن کی طرف
کبھی تو لوٹ کے آئے گاوہ وطن کی طرف
چراغ وصل ہیں گردش میں انجمن کی طرف
نواح عشق سے شاید کہ اٹھ گیا مجنوں
یہ کیسا شور ہوا کا ہے پیرہن کی طرف
فضا میں بولتے ہیں تتلیوں کے پر جیسے
رواں ہے کرمک شب تاب پھول بن کی طرف
سنائی دیتی ہے مرغان بے قفس کی نوا
بہار ٹوک رہی ہے مجھے چمن کی طرف
کہاں سے بادصبا گل کتر کے آئی ہے
جھکی ہوئی نئی خوش بوہے پیرہن کی طرف
اسی کا نام لکھا جائے گا سرمقتل
ہوئے شہید تو دیکھانہ جان وتن کی طرف
عظیم آباد سے اب جی اداس ہو بیٹھا
شکیب ایاز چلے اب تو ہم دکن کی طرف
٭٭٭
|