* ہم بھی عجب ہیں ذہن کو تازہ نہ کرسکے *
غزل
ہم بھی عجب ہیں ذہن کو تازہ نہ کرسکے
شیرازۂ کتاب مہیانہ کرسکے
تکرار تھی تجلی ذات وصفات کی
پردے سے جھانکتے رہے، پردانہ کرسکے
اپنا تو حال میرسے زیادہ خراب ہے
چھت کھل گئی تو ہاتھ بھی سایہ نہ کرسکتے
کیسی رواروی تھی کہ مہلت نہ مل سکی
سامان پیش وپس بھی مہیانہ کرسکتے
زاد سفر بندھا تو گلی ٹو کنے لگی
یعنی کسی کا ترک گوا رانہ کر سکے
روئیں بھی کیا کہ ذائقہ چشم تر گیا
ریگ روان شوق کو دریانہ کر سکے
٭٭٭
|