* رنگ دیوار ودر میں تھاہی نہیں *
غزل
رنگ دیوار ودر میں تھاہی نہیں
یعنی میں اس کے گھر میں تھاہی نہیں
ہم تو آنکھوں میں سب چھپا لیتے
کچھ غبار سفر میں تھا ہی نہیں
کیا کہیں لوٹنا پڑا ہم کو
کوئی رخنہ سفر میں تھا ہی نہیں
ہم نئی اک اڑان بھرلیتے
مرحلہ بال وپر میں تھا ہی نہیں
اشک پیتے توہم بھی آئے تھے
ذائقہ چشم ترمیں تھا ہی نہیں
دستکیں خالی ہاتھ لوٹ گئیں
کوئی موجود گھر میں تھا ہی
خلوت شوق زیرم ثرگاں تھی
میں کہیں رہ گذر میں تھا ہی نہیں
٭٭٭
|